کچھ راحتوں کی کھوج میں آئی تھی زندگی
دیکھا تو اِک لحد میں سمائی تھی زندگی
کیا کیا نہ ایک شخص نے رکھی سنبھال کر
معلوم اب ہوا کہ پرائی تھی زندگی
ہوجائے ریزہ ریزہ لگے جب ذرا سی ٹھیس
کیا سوچ کر خُدا نے بنائی تھی زندگی
تھا دشمنوں کے واسطے عبرت کا یہ مقام
کاندھے پہ دوستوں نے اُٹھائی تھی زندگی
واپس گئی عدم کی طرف خاک اوڑھ کر
سانسیں پہن کے دہر میں آئی تھی زندگی
اُڑتا ہوا وہ ایک پرندہ ہے اب کہاں
اپنے پروں پہ جس نے سجائی تھی زندگی
دیکھا قمار خانہ ِ ہستی میں جب قتیلؔ
داؤ پہ ہر بشر نے لگائی تھی زندگی
(ڈاکٹر یوسف کی رحلت پر)