اب اور تب !
کہا اس نے ـــــــــــــــ
مجھے تب واقعی تم سے محبت تھی
کہا میں نے ـــــــــــــــــــ
مجھے تو آج بھی تم سے محبت ہے
وہ تب کی بات کرتی ہے
میں اب کی بات کرتا ہوں
مگر جو فاصلہ تب اور اب کے درمیاں حائل ہے
وہ ہم سے تو مل کر بھی سمیٹا جا نہیں سکتا
وہ اب تک آ نہیں سکتی
میں تب کو پا نہیں سکتا !!
All posts by admin
کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا – قتیل شفائی
کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا
رکھ دیا قدموں میں دل نذرانہ
قبول کر لو۔۔۔۔۔
فلم: دل میرا دھڑکن تیری (1968)۔۔ گلوکار: احمد رشدی
موسیقار: ماسٹر عنایت، شاعری: قتیل شفائی
آو کوئی تفریح کا سامان کیا جائے – قتیل شفائی
آو کوئی تفریح کا سامان کیا جائے
پھر سے کسی واعظ کو پریشان کیا جائے
بے لغزشِ پا مست ہوں اُن آنکھوں سے پی کر
یوں محتسبِ شہر کو حیران کیا جائے
ہر شے سے مقدس ہے خیالات کا رشتہ
کیوں مصلحتوں پر اسے قربان کیا جائے
مفلس کے بدن کو بھی ہے چادر کی ضرورت
اب کھل کے مزاروں پہ یہ اعلان کیا جائے
اغیار کے ہاتھوں میں ہوں جس ملک کی باگیں
معزول ہر اس ملک کا سلطان کیا جائے
وہ شخص جو دیوانوں کی عزّت نہیں کرتا
اس شخص کا بھی چاک گریبان کیا جائے
پہلے بھی قتیلؔ آنکھوں نے کھائے کئی دھوکے
اب اور نہ بینائی کا نقصان کیا جائے
قتیل شفائی
جب سے آیا ہےترے پیار کا موسم جاناں
جب سے آیا ہےترے پیار کا موسم جاناں
دِل میں رہتی ہے لگاتار چھما چھم جاناں
زخم جو تم نے دیے اُن کا سندیسہ یہ ہے
بھیجنا اب نہ خُدارا کوئی مرہم جاناں
جل رہے تھے مری پلکوں پہ جو یادوں کے چراغ
اب تو اُن کی بھی لویں ہو گئیں مدہم جاناں
رُک گئی سانس، بچھڑنے کی گھڑی جب آئی
دل مگر پھر بھی دھڑکتا رہا پیہم جاناں
باندھ لوں میں بھی تری یاد کے گھنگھرو لیکن
رقص کرنا بھی تڑپنے سے نہیں کم جاناں
تو نے چھوڑا نہ کسی ردِ عمل کے قابل
اب مرا شعر، نہ شُعلہ ہے نہ شبنم جاناں
جانے کیا تجھ سے ہوئی بات کہ گُم صُم ہے قتیلؔ
اب تِرا نام بھی لیتا ہے وہ کم کم جاناں
جب کسی جام کو ہونٹوں سے لگایا میں نے
جب کسی جام کو ہونٹوں سے لگایا میں نے
رقص کرتا ہوا دیکھا ترا سایا میں نے
مجھ سے مت پوچھ مرے محتسب شہر سے پوچھ
کیوں تیری آنکھ کو پیمانہ بنایا میں نے ؟
لوگ کہتے ہیں قصیدہ وہ ترے حسن کا تھا
عام سا گیت جو محفل میں سنایا میں نے
میکدہ بند تھا لیکن جونہی گرجا بادل
اپنی توبہ کو چٹختا ہوا پایا میں نے
شعر و نغمات کا رشتہ کبھی ٹوٹا نہ قتیل
جب غزل بن کے وہ آیا اُسے گایا میں نے . . . !
دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے
دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے
پیار ہے پھر بھی ہری پور، تری شاموں سے
کبھی آندھی، کبھی شُعلہ، کبھی نغمہ، کبھی رنگ
اپنا ماضی مجھے یاد آئے کئی ناموں سے
ایک وہ دن کہ بناں دید تڑپ جاتے تھے
ایک یہ دن کہ بہل جاتے ہیں پیغاموں سے
جب مرے ہاتھ پہ کانٹوں نے دیا تھا بوسہ
وہ مرا پہلا تعارف تھا گُل انداموں سے
جان و دل دے کے محّبت کے خریدار بنے
یہ کھری چیز تو مِلتی ہے کھرے داموں سے
چور بازار میں بِکنے نہ پُہنچ جائے کہیں
جِنسِ ایماں کو نکلوائیے گوداموں سے
پیروی حضرتِ غالبؔ کی ہوئی نصف قتیل
مئے تو ملتی نہیں رغبت ہے فقط آموں سے
کششِ جمال
کششِ جمال
قدم قدم پہ کئی خوش جمال ہین لیکن
کسی میں بات کہاں میرے مہ جبیں جیسی
نگاہ جو بھی اُٹھے اس کے خال و خد پہ گرے
کشش ضرور کوئی اس میں ہے زمیں جیسی
معجزہ
معجزہ
بشر کے رُوپ میں اِک دلربا طلِسم بنے
شفق میں دُھوپ ملائیں تو اُس کا جسم بنے
وہ معجزات کی حد تک پہنچ گیا ہے قتیلؔ
حروف کوئی بھی لکھوں اُسی کا اِسم بنے
وہ ساون جس میں زلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی
وہ ساون جس میں زلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی
جو برسے بھی تو سیراب اپنی تنہائی نہیں ہوتی
جنابِ عشق کرتے ہیں کرم کُچھ خاص لوگوں پر
ہر انسان کے مقدر میں تو رُسوائی نہیں ہوتی
سمندر پر سکوں ہے اس لیے گہرا بھی ہے ورنہ
مچلتی ندیوں میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی
یہ واعظ ہے ، نہیں تقریر میں رکھتا جواب اپنا
مگر اس شخص کی باتوں میں سچائی نہیں ہوتی
جہاں ساقی کی ایما پر کوئی کم ظرف آ بیٹھے
وہاں خوش ذوق رندوں کی پزیرائی نہیں ہوتی
کبھی چہرے بدل کر بھی یہاں کچھ لوگ آتے ہیں
کبھی کُچھ دیکھتی آنکھوں میں بینائی نہیں ہوتی
قتیلؔ اکثر یہ دیکھا ہے کسی مفلس کے آنگن میں
برات آئے تو اس کے ساتھ شہنائی نہیں ہوتی
قتیلؔ اُس شخص کا کیا واسطہ میرے قبیلے سے!
وفا کے جُرم میں جس نے سزا پائی نہیں ہوتی
Read in Roman
ہوا کی لہر کوئی چھوکے میرے یار سے آئی
ہوا کی لہر کوئی چھوکے میرے یار سے آئی
کوئی تازہ خبر یوں بھی سمندر پار سے آئی
لبوں سے کم اور آنکھوں سے بہت کرتا ہے وہ باتیں
بلاغت اس میں یہ پابندیِ اظہار سے آئی
وہ اس کی گفتگو، کلیاں چٹکنے کی صدا جیسے
یہ نرمی اس کے لہجے میں ہمارے پیار سے آئی
کشش رکھتا نہیں اب پھول میرے واسطے کوئی
کہ مجھ تک ہر مہک اُس زلفِ خوشبودار سے آئی
یہاں ہے جو بھی یوسف،خود زلیخاؤں کا گاہک ہے
روایت یہ نئی کیا جانے کس بازار سے آئی
وہ اک مغرور سی لڑکی،خوشی جس کا تخلص ہے
مرے پاس آگئی لیکن بڑے اصرار سے آئی
اندھیروں نے قتیل ؔاکثراُسی دیوار سے جھانکا
اُتر کر دھوپ میرے گھر میں جس دیوار سے آئی